خطرناک سیلف ڈرائیونگ کار بھی انسانی ڈرائیور سے بہتر ہوگی

مئی 2016ء میں ٹیسلا کی ماڈل ایس گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور ڈرائیور کی موت ہوئی تو سیلف ڈرائیونگ یعنی خودکار گاڑیوں کے حوالے سے ایک نئی بحث نے جنم لے لیا۔ اس گاڑی کو حادثء اس وقت پیش آیا تھا جب وہ آٹو پائلٹ موڈ میں تھی۔ یہ کسی بھی خودکار گاڑی کو پیش آنے والا پہلا، اور اب تک کا آخری، حادثہ تھا لیکن اس کے نتیجے میں جس بحث نے جنم لیا اس میں یہ بات کہیں کھو گئي کہ 2016ء میں ہی امریکا میں لگ بھگ 40 ہزار اموات ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہوئیں۔

حکومت اور پالیسی ساز واضح کر چکے ہیں کہ خود کار گاڑیوں کے لیے سیفٹی معیارات بہترین ہونے چاہئیں بلکہ امریکا کی نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن نے تو یہاں تک کہا کہ خودکار گاڑیوں کو انسانی ڈرائیوروں کے مقابلے میں دوگنا محفوظ ہونا چاہیے، تبھی انہیں سڑک پر آنے کی اجازت دی جائے گی۔

autonomous-self-driving-car

کیا سیفٹی معیارات کو اتنا بلند کرنا ضروری ہے؟ یہ ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں؟ حقیقت یہی ہے کہ اتنے سخت معیارات کو پورا اترنے میں ہو سکتا ہے کہ 15 سال لگ جائیں یا پھر 50 سال لیکن رینڈ کارپوریشن کی ایک نئی رپورٹ کہتی ہے کہ ہمیں ‘پرفیکٹ ڈرائیونگ’ کا انتظار کرنے کے بجائے خودکار گاڑیوں کو میدان عمل میں اتارنا چاہیے، چاہے وہ انسان کے مقابلے میں تھوڑی سی ہی زیادہ محفوظ ہی کیوں نہ ہوں۔ اس صورت میں بھی حادثات میں کمی آئے گی۔

پیٹرول اور گیس کی بچت کرتے ہوئے گاڑی ٹپ ٹاپ حالت میں رکھنے کی بہترین ٹپس

رپورٹ کے لیے مستقبل میں سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کی سیفٹی کے لیے تین بنیادی ماڈلز بنائے گئے جس میں پہلا ماڈل انسانی ڈرائیور کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ محفوظ تھا، دوسرا 75 اور تیسرا 90 فیصد۔ ہر ماڈل کو مختلف حالات میں آزمایا گیا کہ ٹیکنالوجی کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور گاڑیوں کے حادثات کی موجودہ سطح میں کیسے کمی لائی جا سکتی ہے۔

خود کار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی بہتر ہوئی تو ڈرائیور سوتا رہے گا

نتیجے میں پایا گیا کہ صرف 10 فیصد کے ساتھ بھی خود کار گاڑیاں سال میں 3 ہزار افراد کی جانیں بچا سکتی ہیں۔ یعنی اگر سیلف ڈرائیونگ کاروں کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے تو صرف تین دہائیوں میں لاکھوں جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

انگریزی میں کہتے ہیں نا کہ “practice makes perfect” اور یہی مقولہ ان خودکار گاڑیوں پر بھی صادق آتا ہے کیونکہ رپورٹ کے مطابق ان گاڑیوں کو سڑک پر گزارنے کے لیے جتنا وقت دیا جائے گا، تجربات کے ذریعے انہیں بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے اور ایک گاڑی کے تجربے سے دوسری خودکار گاڑیوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ لیکن یہ سب تب ہوگا جب رکاوٹیں ختم ہوں گی اور اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود انسان ہے۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ خود کار گاڑیاں بھی کسی حد تک حادثے میں شامل ہو سکتی ہیں، ‘مشین ایرر’ کسی حادثے کا بنیادی سبب بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن انسانوں کے لیے یہ سمجھنا تو آسان ہے کہ کسی دوسرے انسان کی غلطی کی وجہ سے حادثہ ہوگیا، لیکن وہ تاروں اور سینسرز سے بنے کسی نظام سے ہمدردی نہیں کر سکتا۔

دنیا کے بدترین ٹریفک میں سیلف ڈرائیونگ کاریں

ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی آسان نہیں ہوتی۔ ہر ٹیکنالوجی کو عام کرنے کے لیے خطرات مول لینا پڑتے ہیں اور ایسے افراد بہت ہی کم ہوتے ہیں جو ابتدائی خطرے کو آزمانے کے لیے خود کو پیش کریں۔ 20 ویں صدی کے وسط تک کئی لوگوں کے لیے فضائی سفر ناقابل یقین تھا لیکن آج یہ ہماری روزمرہ زندگیوں کا حصہ ہے۔

اس کا ایک ممکنہ حل ‘رائیڈ شیئرنگ’ ہو سکتا ہے۔ گوگل کا مالک ادارہ الفابیٹ امریکا کے شہر فینکس میں ویمو آپریٹڈ کاروں کے ذریعے اس پر کام بھی کر رہا ہے جو مکمل طور پر خودکار ہے۔ اس منصوبے کے تحت اگلے چند ماہ میں ایسی سینکڑوں گاڑیاں کار شیئرنگ سروس کے ذریعے آزمائی جائیں گی۔

خودکار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے میں سب بڑی رکاوٹ ہے ہماری جھجک۔ ایک طرف انجینئرنگ ٹیکنالوجی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب عالم یہ ہے کہ قانون ساز اسے بالکل غلط انداز میں سمجھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی قبولیت عام حاصل نہیں کر پا رہی۔

Comments are closed.