فونٹ کی بنیاد پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے دستاویز جعلی قرار دے دی

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے ماہر کا دعویٰ غلط ہوسکتا ہے

Click For Best Technology Stuff from Around the World

پانامہ کیس کے لئے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں شریف خاندان کے پیش کی گئی ایک دستاویز کو جعلی قرار دیا ہے۔ یہ دستاویز ٹرسٹ ڈیڈ ہے جو حسن نواز اور مریم نواز نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو پیش کی تھی۔

یہ دستاویز مریم نواز خود بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر کرچکی ہیں۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز ایون فیلڈ پارک لین اپارٹمنٹس کی ٹرسٹی ہیں اور جسن نواز ان کے بینیفشری اونر ہیں۔

اس دستاویز کے جعلی ہونے کی بنیاد پر جے آئی ٹی کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ مریم نواز ہی ان فلیٹوں کی بینیفشری اونر ہیں۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ کن بنیادوں پر انہوں نے اس دستاویز کو جعلی قرار دیا ہے۔

جے آئی ٹی نے مریم نواز اور حسن نواز کی اس مبینہ ٹرسٹ ڈیڈ کو فرانزک تجزیہ کے لیے برطانیہ کی Radley Forensic Document  لیبارٹری بھیجا جنہوں نے اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی کو بتایا کہ اس دستاویز کے دونوں صفحات کو ٹائپ کرنے میں جو فونٹ استعمال کیا گیا ہے وہ Calibri ہے۔  ماہر کے مطابق:

یہ بات درست ہے کہ Calibri فونٹ مائیکروسافٹ آفس 2007 اور ونڈوز وستا کے ساتھ ریلیز کیا گیا تھا۔ اس لئے ماہر کے مطابق یہ ممکن نہیں کہ ایک ایسی دستاویز جس پر فروری 2006 میں دستخط کئے گئے ہیں، وہ اس فونٹ میں ٹائپ اور پرنٹ کی جاسکے۔ اس لئے جے آئی ٹی اس نیتجے پر پہنچی ہے کہ یہ دستاویز جعلی ہے۔

اس بات کا ذکر کرنا یہاں بے حد ضروری ہے کہ مائیکروسافٹ آفس 2007 کی جنوری 2007 میں عوامی ریلیز سے پہلے مائیکروآفس کے کئی بی ٹا اور ٹیکنیکل پری ویو ورژن جاری کیے گئے تھے۔ مائیکروسافٹ نے ونڈوز وِستا کی ڈیویلپمنٹ کے دوران جولائی 2005 سے فروری 2006 تک بی ٹا ٹیسٹرز کو کمیونٹی ٹیکنیکل پری ویو ورژن جانچ پڑتال کے لئے پیش کئے تھے۔ ان میں قابل ذکر 2005ء میں ہونے والی مائیکروسافٹ کی پروفیشنل ڈیویلپر کانفرنس ہے جس میں ونڈوز وِستا کو بی ٹا ٹیسٹنگ کے لئے تقسیم کیا گیا تھا۔ دوسری جانب  مائیکروسافٹ آفس 2007 کا بی ٹا 1 ورژن بھی 16 نومبر 2005 کو بی ٹا ٹیسٹرز کے لئے ریلیز کیا گیا تھا۔

مائیکروسافٹ کی مصنوعات کے ابتدائی ورژن انٹرنیٹ پر باآسانی مل جاتے ہیں اور لوگ انہیں استعمال کرنے سے کتراتے بھی نہیں۔ اس لیے صرف اس بنیاد پر کہ فونٹ جنرل پبلک کے لئے جنوری 2007 ء میں ریلیز کیا گِا تھا، کسی دستاویز کو جعلی قرار دینا مناسب عمل نہیں ہوگا۔ کیونکہ 2005 میں بھی یہ مائیکروسافٹ ونڈوز وِستا جس کا کوڈ نیم اس وقت لانگ ہارن تھا اور مائیکروسافٹ آفس 2007 کے فونٹ بی ٹا اور ٹیسٹنگ ورژنز کے ساتھ دستیاب تھا۔

2003ء میں راقم ماہنامہ گلوبل سائنس میں بطور سیکشن انچارج کمپیوٹر و انٹرنیٹ وابستہ تھا۔ دسمبر 2003ء کے جریدے کے لئے میں نے ونڈوز لانگ ہارن جو کہ ونڈوز وِستا کا کوڈ نیم ہے، پر ایک رپورٹ تحریر کی تھی۔ اس رپورٹ کو اس ربط سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ ونڈوز لانگ ہارن میں Calibri فونٹ بھی موجود تھا۔ 2003ء میں جب میں نے یہ رپورٹ شائع کی تھی، اس وقت بھی لانگ ہارن کے حوالے سے انٹرنیٹ پر خاصا مواد موجود تھا۔ جبکہ اس آپریٹنگ سسٹم کو انسٹال کرنے کے لئے آئی ایس او فائل بھی عام ہوگئی تھی۔

ونڈوز وِستا یا ونڈوز لانگ ہارن کے فونٹس بھی فائنل ریلیز سے پہلے انٹرنیٹ پر الگ سے دستیاب تھے۔ جیسا کہ درج ذیل اسکرین شاٹ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

Click For Best Technology Stuff from Around the World

جے آئی ٹیفونٹمائیکروسافٹمریم نوازنواز شریفونڈوز لانگ ہارنونڈوز وستا
تبصرے (6)
Add Comment
  • Imran Zia

    ونڈوز لونگ ہارن کی سی ڈی میرے پاس اب بھی موجود ہے۔

  • Azeem Asim Mughal

    پھر تو سارا جھگڑا آپ ختم کر سکتے ہیں۔ 🙂

  • Babu Sheikh

    but govt officials don’t use such beta or pirated softs …………………

  • Awais Zaki

    every one knows all the politician of Pak. are corrupted.

  • Zohaib Jahan

    بات یہ ہے بیٹا ورژن شوقین مزاج یا ماہرین استعمال کرتے ہیں. برطانیہ کی ایک معتبر فرم کیوں بیٹا ورژن اپنے کمپیوٹر پر انسٹال کرے گی. واضح رہے کہ بیٹا ورژن کے استعمال کے دوران پیدا ہونے والی کسی خرابی کی ذمہ داری مائیکرو سافٹ پر عائد نہیں ہوتی اس لئے بیٹا ورژن کو کو ئی بھی تجارتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرتا. ہاں یہ ممکن ہے کہ کوئی نت نئے فانٹس کا شوقین اسے الگ سے ڈاؤن لوڈ کرکے انسٹال کرلے. عام طور پر گرافکس ڈیزائنر ہی یہ شوق رکھتے ہیں. ایک انتہائی قانونی قسم کی دستاویز پر اس کا استعمال ہونے امکانات کافی کم ہیں. اگر نواز لیگ JIT کے دعوے کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہے اسی ادارے کی جانب سے چھپنے والی دیگر دستاویزات کو ڈھونڈنا ہوگا جو انہی تاریخوں پرنٹ کئے گئے ہوں. اور دستاویزات برطانیہ کی کورٹ کے ریکارڈ روم سے مل سکیں گے. باقی یہ دعوٰی بالکل درست ہے کہ افادہ عام کے لیے یہ فونٹ 2007 میں ہی میسر آیا تھا