چھونے سے شناخت کرنے والے آلات

Click For Best Technology Stuff from Around the World

انگلی کے چھونے سے موبائل فون کا استعمال ایک عام بات ہے اور ٹچ اسکرین موبائل فونز پاکستان سمیت دنیا بھر میں عام ہیں۔ ہم موبائل، اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کے لاتعداد ماڈلز کو انگلی کے ٹچ سے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اب اسی طریقہ سے آپ کی شناخت بھی کی جا سکے گی۔ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک ایسی ڈیوائس تیار کی ہے کہ جو چند بائٹس کا ڈیٹا ، ایک خاص انگوٹھی نما رنگ کے ذریعے اسکرین کو منتقل کرتی ہے۔ یہ انگوٹھی صارف اپنے انگلی میں پہنتا ہے اور یہ انگوٹھی صارف کے انگلیوں کے ذریعے اسکرین کو وولٹیج کے ہلکے سگنلز  منتقل کرتی ہے جو ان سگنلز کو پڑھ کر صارف کو شناخت کرسکتی ہے۔ اس طرح آپ کا اسکرین کو چھونا ہی آپ کی شناخت بن جاتا ہے۔

ایک ہی ڈیوائس کے بہت سے لوگوں کے استعمال کی صورت میں یہ بہت جلدی سے یوزر بدل سکتی ہے۔ مگر اس کا انحصار اس پروگرام پر ہے جو یہ استعمال کر رہی ہے۔ ایسے ویڈیو گیمز جن میں ایک سے زیادہ کھلاڑی کھیل رہے ہوں، اس ڈیوائس کا استعمال بے حد تیزی پیدا کرسکتا ہے۔

اس وقت اس انوکھی ڈیوائس کا ایک پروٹو ٹائپ University  Rutgers کی Winlab میں کام کر رہا ہے۔ ڈوک یونی وسٹی کے محقق رومت روئے چوہدری جو اس انگوٹھی کے بارے میں ہونے والی تحقیق سے واقف ہیں، کہتے ہیں کہ اس ڈیوائس کی مدد سے یوزر انٹر فیس اور یوزر کی تصدیق کے حوالے سے ترقی کی نئی راہیں سامنے آئی ہیں۔ یہ تصور ہی محصور کن ہے کہ مختلف آلات صرف آپ کے چھونے سے ہی آپ کو پہچان کر خود کو آپ کی پسند و ناپسند اور ترجیحات کے مطابق ڈھال لیں۔

اس پراجیکٹ سربراہ Gruteser Marco جو ون لیب میں کمپیوٹر سائنٹسٹ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس ڈیوائس کی تجارتی پیمانے پر فروخت اگلے دو سال میں شروع ہو جائے گی۔ پروٹوٹائپ کی صورت میں اگرچہ ڈیوائس بھاری اور بدصورت سی دکھائی دیتی ہے مگر مارکو کو امید ہے کہ اسے آسانی سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
یہ انگوٹھی(Ring) صرف چھونے سے معلومات ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ اسے ٹچ اسکرین کے ساتھ نصب کر کے پاس ورڈ اور ڈیٹا تیزی سے مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سکیوریٹی کو بہتر بنانے کے لئے اس کا استعمال بطور ’’دوسرے پاسور ڈـ‘‘ کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے کام کرنے کا طریقہ بے حد سادہ ہے۔ اس میں ایک بیٹری سے چلنے والی انگوٹھی اور اس میں فلیش میموری نصب ہے ۔ فلیش میموری پاس ورڈ یا پن کوڈ کو محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک سگنل پیدا کرنے والا آلہ بھی اس میں موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسانی جسم بجلی کا موصل ہے ، یہ آلہ انگلیوں کے راستے اسکرین کو ہلکے وولٹیج کے سگنلز منتقل کرتا ہے۔ ٹچ سکرین ان سگنلز کو انگلیوں سے نکلنے والے وولٹیج میں تبدیلی کا تجزیہ کرکے شناخت کرتا ہے اور ٹچ اسکرین پر مشتمل آلے میں موجود سافٹ ویئر اس سگنل کو ڈی کوڈ کرتا ہے کہ آیا صارف کو آلہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔

ون لیب کی اس ٹیکنالوجی سے پہلے بہت سی ڈیوائس swiping کو استعمال کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انگوٹھی پر مبنی ٹیکنالوجی کو دلچسپ اور قابل عمل کہا جاسکتا ہے۔ کچھ مہنگی ڈیوائسس ایسی بھی ہیں جو بائیو میٹرک نظام کے ذریعے صارف کو شناخت کرتی ہیں جیسے کہ آنکھ کے ریٹینا کے ذریعے یا صارف کی آواز کا تجزیہ کرکے اس کی شناخت کرنا وغیرہ۔ ون لیب کی یہ ٹیکنالوجی بھی اسی ذمرے میں آتی ہے۔

اس وقت اس انگوٹھی سے صرف چند بِٹ فی سیکنڈ کے حساب سے ڈیٹا بھیجا جا سکتا ہے۔ پِن کوڈ جتنا ڈیٹا ترسیل کرنے کے لیے اس رنگ کو دو سیکنڈ لگتے ہیں۔ تاہم مارکو کا کہنا ہے کہ اس رفتار کو سا فٹ وئیر میں تبدیلی کر کے دس گْنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ جس شخص کے پاس صارف کی انگوٹھی ہوگئی، وہ اسے اس شخص کے تمام آلات کو Unlockکرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ اس لئے اس ٹیکنالوجی کے استعمال ویڈیو گیمز یا موبائل فونز کے حد تک محدود رہنے کی امید ہے یا وہ آلات جن کی سکیوریٹی اتنی اہمیت نہ رکھتی ہو۔ اس ڈیوائس کو ایسی جگہ پر استعمال کرنا جہاں پاس ورڈ کی اہمیت بہت زیادہ ہو، شدید مشکلات پیدا کرسکتا ہے اور اس بات سے مارکو بھی اچھی طرح واقف ہیں۔

تاہم اس انگوٹھی کا استعمال وہاں بے حد مفید ثابت ہوسکتا ہے جہاں پاس ورڈ ٹائپ کرنے، ریٹینا اسکینگ، فنگر پرنٹ اسکینگ یا دوسرے بائیو میٹرک نظاموں کی موجودگی کے علاوہ بھی سکیوریٹی کی ایک مزید پرت درکار ہو۔ ایسے نظاموں کی ایک مثال گوگل کا Dual Authenticationپروسس ہے جس میں صارف کو لاگ ان ہونے سے پہلے ایک ایس ایم ایس موصول ہوتاہے جس میں بھیجا گیا کوڈ صارف کو بتانا ہوتا ہے اس کے بعد گوگل اسے لاگ ان کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک نظام ڈراپ باکس بھی استعمال کررہاہے۔ مختلف دیگر ویب سائٹس بھی اس لاگ ان ہونے کے اس نظام کی جانب راغب ہورہی ہیں۔ ایسے میں یہ انگوٹھی بھی موبائل فونز اور دیگر چھوڑے الیکٹرانک آلات میں مزید سکیوریٹی کی فراہمی کے لئے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

Click For Best Technology Stuff from Around the World

Gruteser MarcoUniversity RutgersWinLabٹچ اسکرینڈیوائس سکیوریٹیسکیوریٹی