اردو ویب سائٹس کی تعداد کم کیوں ہیں؟

Click For Best Technology Stuff from Around the World

انٹرنیٹ پر اس وقت کتنی ویب سائٹس آن لائن ہیں، یہ بات حتمی طور پر کوئی نہیں جانتا۔ مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق ویب سائٹس کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔کیون کیلی جو Wired میگزین کے بانی ایڈیٹر ہیں، What Technology Wants میں لکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر کم از کم ایک ہزار ارب ویب پیجز موجود ہیں۔ جبکہ انسانی دماغ میں نیورونز کی تعداد ایک سو ارب ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ہی ICANN نے سیکڑوں نئے TLD یا ٹاپ لیول ڈومین استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ جس کے بعد افراد اور ادارے اپنے کام کی نوعیت کے مطابق ڈومین نیم منتخب کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سول انجینئرنگ اور تعمیر کے کاروبار سے وابستہ لوگ و ادارے .builders کا اور ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے .properties کا ٹاپ لیول ڈومین خرید سکتے ہیں۔ صرف .com جیسے عام ٹاپ لیول ڈومین کی وجہ سے منفرد ڈومین نیم منتخب کرنا مشکل بن گیا تھا اور اس کی وجہ سے نئی ویب سائٹس بننے کا عمل جمود کا شکار ہورہا تھا۔ نت نئے ٹاپ لیول ڈومین آجانے سے اگلے چند سالوں میں ویب سائٹس کی تعداد میں زبردست اضافے کی پیش گوئی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے یہ اضافہ انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں کے لئے محدود ہے، اُردو اس سارے عمل کے ثمرات سے محروم ہے۔

انٹرنیٹ پر اس وقت اُردو ویب سائٹس کی تعداد انتہائی محدود ہے۔ اُردو ویب سائٹ کا مالک ہونا یا اُردو میں بلاگ لکھنا ایک نرالی بات سمجھی جاتی ہے۔ پہلے یہ شکایت تھی کہ خوبصورت اُردو فونٹ دستیاب نہیں اور تصویری اُردو والی ویب سائٹ بنانا مشکل کام ہے۔ پھر اُردو کلیدی تختہ یعنی کی بورڈ بھی بامشکل دستیاب تھا۔ ونڈوز وِستا اور اس کے بعد آنے والے آپریٹنگ سسٹم میں اُردو کی بہترین حمایت (سپورٹ) نے اس مشکل کو آسان بنایا۔ نت نئے خوبصورت اُردو نستعلیق فونٹس کی ایک پوری نسل دستیاب ہوئی اورمنٹوں میں اپنی مرضی کا اُردو کلیدی تختہ تیار کرنا ممکن ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود اُردو ویب سائٹس کی تعداد میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا۔ آخر اس کی وجہ کیا تھی؟

ہماری ناقص رائے میں اس کی بڑی وجہ اُردو ویب سائٹس کا کمائی کے معاملے میں بے کار ثابت ہونا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ویب سائٹس بنا کر اس سے پیسے کمانا ایک پیشہ ہے اور بلاگرز تک کمائی کی غرض سے بلاگ بناتے ہیں۔ ہزاروں لوگ یہ کام کل وقتی طور پر کرتے ہیں۔ کوئی ویب سائٹ کمائی کے قابل اسی وقت ہوتی ہے جب اسے ملاحظہ کرنے لوگ آئیں، اور لوگ اسی وقت آتے ہیں جب مواد دلچسپ، معلوماتی اور مفید ہو۔ ویب سائٹ کے لئے مواد تیار کرنا ایک محنت طلب کام ہے۔ یہ کسی ملازمت جیسا ہی کام ہے جس کا معاوضہ ملانا چاہیے۔ انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں ہر موضوع پر مواد اسی لئے مل جاتا ہے کہ ویب سائٹ مالکان پیسے کمانے کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ تر مواد لکھتے یا لکھواتے ہیں۔

اُردو ویب سائٹس کو کمپنیوں کی جانب سے اشتہارات ملتے ہیں نہ گوگل ایڈ سینس جیسے پروگرام میں انہیں شامل کیا جاتا ہے۔ جن اُردو ویب سائٹس پر اس وقت گوگل ایڈ سینس کے اشتہارات چل رہے ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گِنی جاسکتی ہے۔ پھر اِکا دُکا سر پھرے ہی بچتے ہیں جو کسی مالی فائدے کی چاہت کے بغیر اُردو میں مواد تیار کرتے ہیں۔ یہ کسی مشقت سے کم نہیں کہ معاوضہ بھی نہیں ملتا اور کام بھی مزدور کی طرح کرنا پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں اُردو ویب سائٹس کا نہ بننا کوئی اچنبھے کی بات نہیں!!!

یہاں ہم اپنے ایک دوست نصیر حیدر کا 2007 میں کمپیوٹنگ کی اشاعت پر کیا ایک تبصرہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

’’میں جانتا ہوں کہ بے ادبی کے اس دور میں اگر یہ سائنسی جریدے کی بجھائے فلمی رسالہ نکالتے تو شاید انھیں ہزاروں کی ایڈوٹائزمنٹ مل جاتی ،لاکھوں کا منافع متوقع ہوتااور شاید
ریسرچ کی ضرورت بھی نہ ہوتی ۔
لیکن انھوں نے دشوار رستے کا انتحاب کیا۔
شاید انھیں یقین ہے
کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
امانت بھائی، علمدار بھائی
ہم نہ صرف آپ کے لئے دعاگو ہیں بلکہ اس مشن میں آپ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلیں گے۔‘‘

Click For Best Technology Stuff from Around the World

اردوبلاگویب سائٹ
تبصرے (7)
Add Comment
  • Malik Muhammad Ashiq

    اس میں توکوئی شک نہیں ہے کہ علمدار صاحب بہت ہی اچھا کام کررہے ہیں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔ ماشاءاللہ بہت اچھا کام ہے ۔

  • TechUrdu.com

    چیف ایڈیٹر صاحب، یہ سر پھرے والی بات خوب رہی۔ اردو ویب سائیٹس میں کمی کی آپ نے ایک معقول وجہ بتائی ہے۔ لیکن انگریزی اور دیگر بڑی زبانوں میں بھی سب لوگ ایڈورٹائزمنٹ کی رقم کمانے کے لیے نہیں لکھتے، کیونکہ بیشتر ویب سائیٹس یا بلاگز اتنی تعداد میں نہیں پڑھے جاتے کہ انہیں ایڈز سے کچھ فائدہ ہو۔ ایسے لکھنے والوں کے حلقہ احباب کے لوگ، عزیز و اقارب، اور شاگرد وغیرہ اگر ان کی تحریریں پڑھ لیں تو ان کا شوق اور مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں اردو ویب سائیٹس کی کمی کی ایک نمایاں وجہ تکنیکی مشکل ہے۔ اگر اس مقصد کے لیے شارٹ کورسز متعارف کرائے جا سکیں تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔

  • عثمان احمد

    Naseer Haider has said it very right … but see computing has daily thousands of visitors that are your asset.

  • imi khan

    Agreed bhai 🙂

  • soash

    mery nazdeek iski mukhtalif wajoohat hain jinki bina par urdu websites ki tadaad kam hai,
    1. urdu websites ki SEO koi khas nahi hoti.
    2. urdu websites k lye material dhondna or phir usko translate kar k likhna aik diqqat talab kaam hai or yaha me apki is efforts ki tareef karonga jo ap log karty hain computingpk ko aik quality website banany me.
    3. urdu parhny waly usrers to boht hain, lekin urdu type karny waly kam hain.. qk urdu type karna thora mehnat talab kaam hai. jaisa k me is waqt roman urdu use kar rha ho. me ne try ki urdu typ ekarny ki lekn mery browser me mojood add-on ne kaam nai .

    to is trah ki or bhi wajoohat hain jinki waja se urdu website banany walo ko kafi mehnat karna parti hai islye wo isky bajaye english websites banany ko tarjeeh dety hain.

  • محمد اسفند یار

    آپ کے سوال کا جواب ہے کہ اردو بلاگنگ کے کم ہونے کی دو وجہیں ہیں
    کمائی
    اس بات کو میں یوں ثابت کرتا ہوں کہ (ذاتی تجربہ) ہم بلاگ بناتے ہیں شوق سے مگر وقت کی کمی کی وجہ سے اس کو لکھ نہیں باتے میں نے اسفند نامہ بلاگ بنایا میرے پاس ای میل کی ایک لمی فہرست لگ گئی جناب اس بارے میں بھی لکھیں اس بارے میں بھی لکھیں
    مگر اس میں وقت درکار ہوتا ہے میں وقت کیوں دو جب مجھے وقت دینے پر ملے گا ہی کچھ نہیں۔اگر دوسری طرف بلاگ مجھے کچھ رقم دے تو میں خوشی خوشی بلاگ کو وقت دوں ۔اسی لئے میرے حساب سے اردو بلاگر کی کمی کی دو بڑی وجہ بلاگ سے کمائی کا نہ ہونا ہے۔
    دوسری تلاش کا نظام کا بہتر نہ ہونا ہے کیوں کہ جب بلاگ آپکا اردو میں ہو گا تو اس میں ٹریفک بھی اردو سے ہی آئے گی اور عام یوز کے پاس اردو کی بورڈ انسٹال ہی نہیں ہوتا اسی لئے ٹریفک کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے بلاگر بلاگنگ بند کر دیتا ہے

  • Abdul Waheed

    ap ki website py “A” likha nazar nai aata
    parhny me is tarha boht mushkil hoti hy
    please is ko theek kr len