دنیا بھر میں یوٹیوب کی بندش کی کہانی

یوٹیوب کی بندش ایک ایسا موضوع ہے جس پر اکثر سبھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کی معروف ترین وڈیوشیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب صرف پاکستان میں ہی عتاب کا شکار نہیں، بلکہ دیگر بھی کئی ممالک میں اسے اکثر بندش کا سامنا رہا ہے، بلکہ تاحال یہ پاکستان کی طرح کئی ممالک میں بلاک ہے۔ یوٹیوب کی بندش کے پیچھے عموماً مختلف وجوہات رہی ہیں۔ مثلاً:

٭… عوام کو ایسے مواد سے دُور رکھنا جس کی وجہ سے سماجی یا سیاسی انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو۔
٭… یو ٹیوب پر موجود کسی وڈیو میں حکمران، حکومت، حکومتی اہلکاروں، مذہب یا مذہبی رہنماؤں پر کی گئی تنقیدکو عوام تک پہنچنے سے روکنا۔
٭… جملہ حقوق کی خلاف ورزی کرتے مواد کا یوٹیوب پر موجود ہونا۔
٭… ملکی سلامتی کے رازوں کے افشا ہونے کا خطرہ۔
٭… نوجوانوں کو ایسے مواد سے دُور رکھنا جو ان کے لیے خطرناک تصور کیا جاتا ہو۔
٭… طالب علموں یا ملازمین کو وقت ضائع کرنے سے بچانا۔

پوری دنیا میں یوٹیوب کو مختلف قسم کی بندشوں کا سامنا ہے۔ کچھ ممالک میں تو یہ کُلی طور پر بلاک ہے۔ جبکہ کئی ممالک میں اس کی بندش کو موسمی کہا جا سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اسے کئی مواقعوں پر بند کیا جاتا ہے جیسے کہ عام انتخابات سے پہلے یا کسی مخصوص تہوار سے پہلے۔ جبکہ کئی ممالک میں مخصوص وڈیوز کو بلاک کر کے باقی یوٹیوب عوام کے لیے قابل رسائی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں یوٹیوب کی مکمل آزادی کو ان متنازعہ وڈیوز کے حذف کرنے سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔
یوٹیوب کو صرف پاکستان میں ہی نیشنل بین کا سامنا نہیں بلکہ ستمبر 2012 میں اسے چین، ایران اور ترکمانستان نے بھی اپنی عوام کے لیے بند کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ یوٹیوب کی جانب سے ’’سروس شرائط‘‘ موجود ہیں جن کے تحت یوٹیوب پر ایسی وڈیوز اپ لوڈ کرنا ممنوع ہیں جو جملہ حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہوں، ان میں کوئی غیرقانونی کام دکھایا گیا ہو، بیہمانہ تشدد ہو یا نفرت پر اُکسانے والا مواد ہو وغیرہ۔ ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے والی وڈیوز کو یوٹیوب سے حذف کر دیا جاتا ہے اور ان کی جگہ درج ذیل پیغام دکھایا جاتا ہے:

“This video is no longer available because its content violated YouTube’s Terms of Service”.

مختلف دفاتر، اسکولوں، سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اکثر اپنی بینڈوِڈتھ کی بچت کے لیے بھی یوٹیوب کو بند رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بندش چھوٹے پیمانے پر ہوتی ہے، آئیے آپ کو بتاتے ہیں دنیا کے کن ممالک میں یوٹیوب کو بندش کا سامنا رہا ہے۔

افغانستان

مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والی متنازعہ فلم کی یوٹیوب پر موجودگی کی وجہ سے 12 ستمبر 2012 کو افغانستان نے اسے بلاک کر دیا تاہم یہ بین زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہا اور اسے یکم دسمبر 2012 کو ختم کر دیا گیا۔

آرمینیا

2008 کے صدارتی انتخابات کی وجہ سے آرمینیا میں قریباً ایک ماہ تک شہریوں کو یوٹیوب سے محروم رکھا گیا۔ دراصل اپوزیشن جماعت نے عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے لیے حکومتی ایما پر پولیس اور آرمی کے تشدد پر مبنی وڈیوز یوٹیوب پر ریلیز کر دی تھیں۔

بنگلہ دیش

مارچ 2009 میں یوٹیوب پر بنگلہ دیشی وزیراعظم اور آرمی افسران کی ایک میٹنگ کی ریکارڈنگ سامنے آئی۔ اس وڈیو میں آرمی افسران کو حکومت پر غصہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا کہ حکومت ڈھاکا کے سرحدی باغی گارڈز سے نمٹنے میں کوتاہی کیوں برت رہی ہے۔ اس وڈیو کے سامنے آنے کے بعد بنگلہ دیش میں یوٹیوب کو بند کر دیا گیا تاہم 21 مارچ کو یہ بین اُٹھا لیا گیا۔

17 ستمبر 2012 کو اسلام مخالف متنازع فلم کی وجہ سے دوبارہ یوٹیوب کو بنگلہ دیشی حکومت نے دوسری بار بند کر دیا۔ 5 جون 2013 کو بنگلہ دیش ٹیلی کمیونی کیشن ریگولیٹری کمیشن نے اس بندش کو ختم کیا۔

برازیل

مشہور برازیلی فٹ بالر ’’رونالڈو‘‘ کی سابقہ دوست کی غیر اخلاقی وڈیو کے یوٹیوب پر آنے کے بعد برازیل میں یوٹیوب پر کیس دائر کیا گیا۔ کیس کی سماعت کے بعد 6جنوری 2007 کو عدالتی حکم کے پیش نظر یوٹیوب کو برازیل میں بند کر دیا گیا۔ بعد میں اس حکم پر سوال اُٹھائے گئے کہ متعلقہ وڈیو یوٹیوب کے علاوہ بھی انٹرنیٹ پر کئی جگہ موجود ہے تو بندش کا سامنا صرف یوٹیوب کو کیوں؟
اس تنقید کے بعد 9جنوری 2007 کو اسی عدالت کو یہ بندش ختم کرنے کا حکم نامہ جاری کرنا پڑا۔

چین

چین میں پہلی دفعہ یوٹیوب 15 اکتوبر 2007 سے لے کر 24 مارچ 2009 تک بند رہی۔ جبکہ دوسری دفعہ جب 24 مارچ 2009 کو اسے بلاک کیا گیا تو یہ بندش آج تک نہ ٹوٹ سکی۔ چین میں یوٹیوب کی بندش انتہائی پُراسرار ہے کیونکہ حکومتی اہلکار نہ تو اس بندش کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تردید۔ البتہ چین میں یوٹیوب سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کی دلچسپی کے لیے بتاتے چلیں کہ چین میں صرف یوٹیوب کے ساتھ ہی سوتیلوں والا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ دیگر بھی کئی ویب سائٹس جیسے کہ فیس بک، گوگل، جی میل، گوگل پلس، گوگل میپس، گوگل ڈرائیو، ڈراپ باکس، بلاگ سپاٹ، ورڈپریس، فلکر، بی بی سی اور ساؤنڈ کلاؤڈ سمیت دیگر کئی ویب سائٹس مکمل طور پر بلاک ہیں۔

جرمنی

جرمنی میں جملہ حقوق یعنی کاپی رائٹس کی حامی تنظیم جیما (GEMA) اور یوٹیوب کے مابین اکثر اس حوالے سے تنازعہ رہتا ہے۔ جیما کے مطابق یوٹیوب پر اکثر جملہ حقوق کی خلاف ورزی کرتی وڈیوز موجود رہتی ہیں۔ اکثر وڈیوز میں کسی کا میوزک بغیر اجازت بیک گراؤنڈ میں ڈال دیا جاتا ہے، اس لیے جرمنی میں یوٹیوب اکثر بلاک رہتی ہے تاہم معاملات طے پا جانے کے بعد اسے کھول بھی دیا جاتا ہے۔

انڈونیشیا

یکم اپریل 2008 کو انڈونیشا کے وزیر اطلاعات محمد نوح نے یوٹیوب سے متنازعہ فلم ’’فتنہ‘‘ کو ہٹانے کا کہا۔ اس کام کے لیے انڈونیشی حکومت نے یوٹیوب کو دو دن کا وقت دیا، لیکن یوٹیوب کی جانب سے وڈیو کو نہ ہٹائے جانے کے بعد 4اپریل کو وزیراطلاعات نے ملک میں موجود تمام انٹرنیٹ فراہم کرنے والی سروسز کو حکم دیا کہ یوٹیوب کو بلاک کر دیا جائے۔ 5 اپریل کو اسے آزمائشی طور پر ایک ISPپر بلاک کرنے کے بعد 8 اپریل کو پورے ملک میں بند کر دیا گیا۔ لیکن یہ بین زیادہ عرصے تک کارآمد نہ رہا بلکہ دو دن بعد یعنی 10 اپریل کو ہی ختم کر دیا گیا۔

ایران

3 دسمبر 2006 کو ایران نے یوٹیوب سمیت دیگر کئی ویب سائٹس کو ’’فاجرو فاسق‘‘ قرار دیتے ہوئے ملک میں بند کر دیا۔ دراصل ایک ایرانی اداکار کی نازیبا وڈیو کے یوٹیوب پر سامنے آنے کے بعد یہ بین لگایا گیا تھا۔ یہ بین بعد میں اُٹھا لیا گیاتھا لیکن 2009 میں ایرانی صدارتی انتخابات کے وقت دوبارہ لاگو کر دیا گیا۔2012 میں اسلام مخالف فلم Innocence of Muslims کے سامنے آنے کے بعد ایران نے یوٹیوب اور گوگل کو ملک بھر میں بلاک کر دیا اور یہ پابندی تاحال برقرار ہے۔

لیبیا

24 جنوری 2010 کو لیبیا نے مکمل طور پر یوٹیوب کو ملک میں بلاک کر دیا۔ اس کی وجہ1996 میں ابوسلیم نامی جیل میں لیبین خاندانوں کے قتل کی وڈیوز کا یوٹیوب پر سامنے آنا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ لیبین قائد محمد قدافی کے خاندان کو مارنے کی وڈیوز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنا بھی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس بین کی شدید مذمت کی تھی۔ نومبر 2011 میں لیبین سول وار کے بعد یوٹیوب کو ایک بار پھر لیبیا میں کھول دیا گیا۔

ملائشیا

مئی 2013 میں حساس سرکاری وڈیوز کے یوٹیوب پر آنے کے بعد حکومت کے انٹرنیٹ کو سینسر نہ کرنے کے وعدے کے باوجود اسے بلاک کیا گیا۔ نیٹ ورک کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ واقعی ISP صارفین پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انھیں یوٹیوب تک رسائی نہیں دے رہی۔

مراکش

25 مئی 2007 کو سرکار کی ملکیت ’’ماروک ٹیلی کوم‘‘ (Maroc Telecom)نے یوٹیوب تک رسائی بند کر دی۔ اس بندش کی کوئی وجہ نہ بتائی گئی، تاہم قیاس آرائی یہ تھی کہ مراکش میں علیحدگی پسند تنظیموں نے اپنی وڈیوز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا تھا، جن میں بادشاہِ وقت پر تنقید کی گئی تھی۔ یوٹیوب پر یہ پابندی صرف سرکاری ٹیلی کام ادارے نے عائد کر رکھی تھی، دیگر دونوں غیرسرکاری انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں نے ایسی کوئی پابندی لاگو نہیں کی۔ 30 مئی 2007 کو یہ بین اچانک ختم کر دیا گیا۔ ماروک ٹیلی کام نے اپنے غیر سرکاری بیان میں کہا کہ یہ کوئی بین نہیں تھا بلکہ ’’تکنیکی خرابی‘‘ کی وجہ سے کچھ عرصے تک یوٹیوب نہ چل سکی۔

پاکستان

پاکستان میں 22 فروری 2008 کو پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے کئی متنازع اور اسلام مخالف مواد کے یوٹیوب پر موجود ہونے کی وجہ سے اسے ملک میں بلاک کر دیا۔ پاکستانی ISP نے بلاکنگ کے دوران راؤٹر کی غلط کنفگریشن کر دی جس کی وجہ سے 24 فروری 2008 کو یوٹیوب پاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی گھنٹوں تک بند رہی۔ پاکستانی حکومت کی درخواست پر متنازعہ اور اسلام مخالف مواد کے ہٹائے جانے کے بعد 26 فروری 2008 کو پاکستان میں یہ بین اُٹھا لیا گیا۔ تاہم متنازعہ مواد کے دوبارہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے 17 ستمبر 2012 کو یوٹیوب دوبارہ پاکستان میں بلاک کر دی گئی۔ پاکستانی حکام کی درخواست کے باوجود یوٹیوب نے اسلام مخالف مواد نہ ہٹایا اور بین تاحال قائم ہے۔

11 دسمبر 2013 کو پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے اعلان کیا کہ انھوں نے گوگل کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ پاکستانی صارفین کے لیے ایک لوکل یوٹیوب youtube.com.pk کے نام سے فراہم کی جائے۔ چونکہ یہ پاکستان کے اختیار میں ہو گی اس لیے عالمی یوٹیوب کے مقابلے میں اس پر باآسانی متنازعہ مواد بلاک کیا جا سکے گا اور باقی یوٹیوب صارفین کی دسترس میں ہو گی۔ لیکن خصوصی سروس کے لیے پاکستانی حکومت کو گوگل کی کچھ شرائط کو منظور کرنا تھا۔ ان شرائط کو خفیہ رکھا گیا ہے۔

پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کی طویل کہانی ہے۔ اکثر حلقے اس کے حق میں ہیں اور مخالفین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ اس بین کو ختم کرنے کے لیے مختلف فورمز پر آواز اٹھائی گئی، وڈیوز بنائی گئیں، حتیٰ کہ گانے بھی بنائے گئے لیکن یہ بین تاحال اپنی جگہ قائم ہے۔

متحدہ عرب امارت

یو اے ای ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی نے یوٹیوب اگست 2006 میں بین کی تھی لیکن بعد میں یہ بین اُٹھا لیا گیا۔

روس

2010 ماسکو میٹرو بم دھماکوں میں ملوث شخص کی دھماکوں کی ذمے داری قبول کرنے والی وڈیو کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنے کے چار دن کے اندر آٹھ لاکھ بار دیکھا گیا۔ اس کے بعد اس وڈیو سمیت اپ لوڈ کرنے والے کی تمام وڈیوز کو ’’نامناسب‘‘ قرار دیتے ہوئے یوٹیوب سے ہٹا دیا گیا۔ اس بات کا الزام روس کو دیا جاتا ہے کہ اس دباؤ کی وجہ سے یوٹیوب نے ایسا کیا۔ 28 جولائی 2010 کو روس کے ایک شہر کی کورٹ نے مقامی ISP کو حکم دیا کہ یوٹیوب اور ویب آرکائیو سمیت ایسی ویب سائٹس جو کتابیں ڈاؤن لوڈنگ کے لیے فراہم کرتیں کو بند کر دیا جائے کیونکہ یہ نامناسب مواد پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ لیکن اس حکم پر عمل در آمد نہ ہو سکا اور اسے بعد میں واپس بھی لے لیا گیا۔

متفرق

یوٹیوب اور سوشل میڈیا سروسز اکثر عتاب کا شکار رہتی ہیں۔ شام، سوڈان، تاجکستان، تھائی لینڈ، تونیسیا، ترکی، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات سمیت امریکا میں بھی یوٹیوب بلاک رہی ہے۔ ان میں سے اکثر ممالک میں تاحال یہ پابندی برقرار رہے۔

2 تبصرے
  1. TechUrdu.com says

    معلوماتی تحریر ہے۔

  2. Zeshan Sajid says

    nice article

Comments are closed.