مستقبل میں ہم اُڑیں گے ایسے مسافر ڈرونز میں

ڈرون کا نام پاکستان میں بدنام ہے، اس کا دوسرا مطلب ہے ‘موت’ لیکن دنیا کے دیگر حصوں میں ڈرون جدّت کا نیا نام ہے۔ آن لائن فروخت کردہ اشیاء کی ہوم ڈلیوری سے لے کر کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کے اسپرے تک، مغرب میں ڈرون کا استعمال بہت وسیع ہو چکا ہے۔ کیا مستقبل میں یہ انسانوں کو بھی ان کی منزل تک پہنچانے کا کام کریں گے؟ اس خیال پر کئی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک سوئٹزرلینڈ کا ‘پسنجرڈرون’ (PassengerDrone) ہے۔ اس ادارے نے دو نشستوں پر حامل ایسا ڈرون تیار کیا ہے جو نقل و حمل کے تصوّر کو تبدیل کردے گا۔

اس جدید ڈرون میں آپ صرف ٹچ اسکرین پر منزل کا انتخاب کریں گے اور آرام اور سکون کے ساتھ منزل تک پہنچ جائیں گے۔ یہ خوبصورت ڈرون کار سے تھوڑا سا چھوٹا ہے اور 80 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اڑ سکتا ہے۔ اس میں ایک نہیں، بلکہ دو مسافر آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر مسافر خود اڑانا چاہے تو مینوئل موڈ بھی موجود ہے۔

یہ ڈرون 16 برقی انجنز استعمال کرتا ہے اور عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات، یہ ڈرون اندر سے مکمل طور پر فائبر آپٹک کا بنا ہوا ہے، اور اس میں ایک تار بھی نہیں یعنی یہ واقعی مستقبل کی چیز ہے۔

لیکن یہ بات آپ جانتے ہیں کہ حال میں مستقبل کو پانا بہت مہنگا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسافر ڈرون کی قیمت ڈیڑھ سے دو لاکھ ڈالرز ہے، یعنی دو کروڑ روپے سے بھی زیادہ۔

پسنجر ڈرون کی آزمائشی پروازیں اگست میں کی گئی تھیں لیکن کمپنی ترجمان کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں دستیابی کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا جا سکتا۔

مسافر ڈرون کی ٹیکنالوجی اب کافی پختہ صورت اختیار کرگئی ہے لیکن راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مختلف ممالک میں اجازت کا ملنا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ 2018ء کے آخر تک امریکا، یورپ اور چند دیگر بڑی مارکیٹوں میں مسافر ڈرونز کی اجازت مل جائے گی۔

ویسے تو مسافر ڈرونز ابھی تک عام مارکیٹ میں نہیں آئے، لیکن مقابلہ پہلے سے ہی شروع ہوچکا ہے اور بڑا سخت ہے۔ پسنجر ڈرون کو سخت مسابقت کا سامنا ہوگا ای ہینگ 184 ڈرون ٹیکسی کے ہاتھوں، جو دبئی میں ٹیسٹنگ شروع بھی کرچکی ہے اور اسے امریکا میں تجربات کی اجازت بھی مل چکی ہے۔ پھر امریکا کے میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنس دان پہلے ہی ‘اڑتی کار’ کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو چلنے کے علاوہ اُڑ بھی سکے گی۔

Comments are closed.