ایپلی کیشن کا بی ٹا ورژن جسے دس کروڑ لوگ استعمال کرتے رہے

چونکہ آج کل پانامہ کیس کے لئے تشکیل دی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ کے بعد بی ٹا سافٹ ویئر کا ذکر خاصی خشوع و خضوع کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس لیے ہم نے سوچا کیوں نہ آپ کو ایک ایسی ایپلی کیشن کے بارے میں بتایا جائے جسے اس کے بی ٹا فیز میں 10 کروڑ لوگ استعمال کرتے رہے اور یہ ایپلی کیشن اپنے ابتدائی ورژن کے 5 سال بعد تک بی ٹا ورژن میں رہی۔ اس دوران اس ایپلی کیشن کے بگ بھی دور کیے گئے اور اسے کاروباری استعمال کے لئے تیار بھی کیا جاتا رہا۔ اس ایپلی کیشن کو 2004ء میں جب لانچ کیا گیا تو اس وقت بہت کم لوگوں کو اس تک رسائی حاصل تھی۔ یہ اس ایپلی کیشن کا اولین بی ٹا ورژن تھا۔ جس صارف کی دسترس میں یہ ایپلی کیشن تھی، صرف وہی کسی دوسرے کو اس ایپلی کیشن کو استعمال کرنے کے لئے دعوت دے سکتا تھا۔ بی ٹا کو 2004ء میں پبلک کرنے سے پہلے اسے بنانے والی کمپنی کے اپنے ملازمین اسے کمپنی میں استعمال کرتے رہے۔اس ایپلی کیشن پر کام 2001ء میں ہی شروع کردیا گیا تھا۔

جن قارئین کو علم نہیں، انہیں بتاتے چلیں کہ بی ٹا ورژن کسی بھی سافٹ ویئر، پروگرام، ویب سائٹ یا کوڈ کا وہ ابتدائی ورژن ہوتا ہے جسے آفیشل ورژن ریلیز کرنے سے پہلے جانچ پڑتال یا عوامی ردعمل جاننے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ بی ٹا ورژن عموماً عام عوام کے لئے دستیاب ہوتا ہے۔ تاہم کچھ کمپنیاں بی ٹا ورژن کو مخصوص ٹیسٹ گروپز کے علاوہ کسی کو فراہم نہیں کرتیں۔ بڑی کمپنیاں مثلاً مائیکروسافٹ کے بی ٹا ورژن خاصے مقبول ہوتے ہیں۔

بی ٹا ورژن سے پہلے بھی ایک ورژن ہوتا ہے جسے الفا ورژن کہا جاتا ہے۔ اسے بہت کم کمپنیاں ریلیز کرتی ہیں۔ عموماً ایسے پروگرام کمپنی کے اندر ہی استعمال کئے جاتے ہیں اور انہیں پبلک نہیں کیا جاتا ہے۔ تاہم مائیکروسافٹ جیسی بڑی کمپنی کے الفا ورژن بھی انٹرنیٹ پر لیک ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مائیکروسافٹ کے کئی ایسے ورژن جن کے بارے میں مائیکروسافٹ سے باہر بہت کم لوگ جانتے ہیں، http://wzor.net نامی ویب سائٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
بہرحال، ہم جس بی ٹا ایپلی کیشن کا ذکر کررہے تھے، اسے بنانے والی کمپنی نے اسے 5 سال تک بی ٹا فیز میں رکھا۔ یہ اس کمپنی کی واحد ایپلی کیشن نہیں تھی جسے لمبے عرصے تک بی ٹا فیز میں رکھا گیا تھابلکہ کئی دوسری ایپلی کیشنز کے ساتھ بھی یہی سلوک رکھا گیا۔

مذکورہ ایپلی کیشن کا بی ٹا ورژن بے حد جدید تھا اور اپنے دور میں دستیاب دیگر ایپلی کیشنز کے مقابلے میں نئی سہولیات اور صارفین کے لئے زیادہ فیچرز تھے۔ ابتداء میں تو لوگوں کو لگا کہ کمپنی ان کو بیوقوف بنا رہی ہے۔ لیکن بہت جلد یہ خدشات بھی دور ہوگئے ۔ مذکورہ ایپلی کیشن لوگوں میں مقبول ہوتی گئی اور کچھ ہی عرصے میں اس نے اپنے مدمقابل دوسری سروسز اور ایپلی کیشنز کی چھٹی کروانا شروع کردی۔

یہ ایپلی کیشن کچھ اور نہیں “گوگل کی جی میل سروس” ہے جس نے 5 سال بی ٹا فیز میں گزارے اور 7 جولائی 2009ء کو گوگل نے اسے باقاعدہ طور پر بی ٹا فیز سے نکال کو مستحکم ورژن کی ڈگری تھمائی۔

جی میل ایسی واحد ایپلی کیشن نہیں جسے لمبے عرصے تک بی ٹا فیز میں رکھا گیا۔ معروف ایپلی کیشن فلکر (Flickr) جب فروری 2004ء میں لانچ کی گئی تو یہ اس کا بی ٹا ورژن تھا۔ 2005ء میں یاہو نے اسے خرید لیا۔ لیکن یہ ایپلی کیشن بی ٹا فیز میں ہی رہی۔ اس کے بعد 2006ء میں کمپنی نے تفریحاً ایپلی کیشن کا ورژن بی ٹا سے گاما کردیا۔ حالانکہ پروگرامنگ کی دنیا میں گاما ورژن کا کوئی تصور نہیں ۔

Comments are closed.