اب ڈی این اے میں بھی ڈیٹا محفوظ ہوسکے گا

dna-biostorageڈ ی این اے زندگی کا بلیو پرنٹ محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ڈیٹا جس میں ڈاکیومنٹس، موویز، میوزک وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں، محفوظ کرنے کا کام بھی کرسکے گا۔

یورپیئن بائیو انفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ ، انگلینڈ کے ریسرچرز نے چند عام کمپیوٹر فائل فارمیٹس کو ڈی این اے میں محفوظ کرنے کا کامیاب عملی مظاہرہ بھی کرکے دکھایا ہے۔ جیسے جیسے ڈی این اے سیکوئنسنگ اور سینتھیسائزنگ کا عمل انجام دینے کی قیمت میں کمی واقع ہورہی ہے، ریسرچرز کا خیال ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں بائیولوجیکل اسٹوریج ایک حقیقت کا روپ دھار لے گی۔
ڈی این اے کی ڈیٹا محفوظ کرنے کی قابلیت ہمارے زیر استعمال موجودہ اسٹوریج میڈیا سے کم از کم ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔ ڈی این اے میں ڈیٹا محفوظ کرنے کا خیال نیا نہیں ہے لیکن چونکہ ڈی این اے سینتھسائزنگ ( یعنی ڈی این اے کی نقلیں تیار کرنا) ،سیکوئنسنگ (A، G، C اور T کی ترتیب) کی قیمت اور درکار آلات کافی مہنگے ہیں اس لئے اس جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور مختلف ریسرچرز اپنے تجسس کی تسکین کیلئے اس منصوبے پر کام کرتے رہے۔

ہمارے زیر استعمال عام اسٹوریج میڈیا کی جہاں بہت سی خوبیا ں ہیں، وہیں اس کی خامیاں بھی کھل کر سامنے آنے لگی ہیں۔ یہ اسٹوریج میڈیا ڈیٹا کو کئی دہائیوں تک محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ خاص طور پر مقناطیسی اسٹوریج میڈیا میں ڈیٹا کی عمر خاصی کم ہوتی ہے جس کی مقناطیسی کوٹنگ چند ہی سالوں یا دہائیوں میں ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اسٹوریج میڈیا چند دہائیوں تک محفوظ رہ بھی جائے تو بھی ہم اسٹوریج فارمیٹ بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ آج سے چند دہائی بعد نہیں معلوم ہم کس قسم کے فائل فارمیٹ استعمال کررہے ہونگے اور کیا ہمارے زیر استعمال فارمیٹ اس وقت قابل استعمال ہونگے؟ اسی طرح مقناطیسی اسٹوریج میڈیا کی فی مربع انچ ڈیٹا محفوظ رکھنے کی گنجائش بھی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے ۔ جلد ہی ہم اسٹوریج میڈیا کو مزید چھوٹا نہیں کر پائیں گے۔

ڈی این اے کے ساتھ ایسامعاملہ نہیں۔ اس میں محفوظ معلومات ہمیشہ محفوظ رہتی ہے اور اس کا فارمیٹ کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لاکھوں سال پرانے فوسلز کے ڈی این اے سے بھی معلومات اخذ کرلیتے ہیں اور اگر ہم ڈی این اے کو ’’فریز‘‘ کردیں تو اس سے بھی زیادہ عرصے تک ڈی این اے محفوظ رہتا ہے۔

یورپیئن بائیو انفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ میں اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر نک گولڈ مین کے مطابق ’’ ہم اسٹوریج میڈیم اور اسے پڑھنے والی مشین کو الگ الگ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ڈی این اے کو پڑھنے والے ٹیکنالوجیز ہمیشہ رہیں گے ‘‘
ان محققین نے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مشہور تقریر  ’’I have a dream‘‘ کی ایم پی تھری فائل ، ایک ریسرچ پیپر کی پی ڈی ایف فائل، شیکسپیئر کی شاعری پر مشتمل ٹیکسٹ فائل اور ایک رنگین JPEG تصویر کو ڈی این اے میں اِنکوڈ کرنے کا کامیاب مظاہرہ کیا ۔ ڈی این اے کی فائلیں محفوظ کرنے کی گنجائش 2.2پیٹا بائٹس فی گرام ہے۔ اس حساب سے تقریباً گیارہ گرام ڈی این اے میں میگا اپ لوڈ (جو اب بند ہوچکی ہے) پر صارفین کی اپ لوڈ کی گئی تمام فائلیں (28پیٹا بائٹس) محفوظ کی جاسکتی ہیں۔
ڈی این اے پر ڈیٹا محفوظ کرنے کا یہ پہلا تجربہ نہیں۔ حال ہی میں ہارڈورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچرز نے پروفیسر جارج چرچ کی سربراہی میں ایک کتاب کو ڈی این اے میں محفوظ کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔

dna-storageگولڈ مین کے مطابق ان کی تحقیق میں زیادہ عملی اور error-tolerant ڈیزائن پر توجہ دی گئی ہے۔ ڈی این اے پر ڈیٹا محفوظ کرنے کے لئے ان محققین نے ایک سافٹ ویئر تیار کیا جو بائنری ڈیٹا (1اور 0) کو جینیاتی حروف یعنی A، T، G اور Cمیں تبدیل کردیتا ہے۔ ساتھ ہی یہ پروگرام اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ ایک ہی جنیاتی حرف ساتھ ساتھ( یعنی AAاور CC ) نہ ہوں۔ بصورت دیگر سیکوئنسنگ اور سینتھیسائزنگ کے عمل کے دوران ڈیٹا خراب ہوسکتا ہے۔ فائلوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر الگ الگ محفوظ کیا جاتاہے اور ہر حصے کو ایک خاص انڈیکس کوڈ دے دیا جاتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ ٹکڑا کس فائل میں کس جگہ کا ہے۔

ان ریسرچرز نے اگیلنٹ(Agilent) ٹیکنالوجیز جسے جینومکس (مالیکولر بائیولوجی کی ایک شاخ جس میں جینوم کی ساخت، فنکشن اور جنیوم کی میپنگ کا مطالعہ کیا جاتا ہے) میں مہارت حاصل ہے کے ساتھ ملکر ڈی این اے کے حصوں کو سینتھاسائز کیا اور ڈیٹا کو ڈی این اے میں لکھنے اور پڑھنے کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس سارے عمل کی تفصیلات مشہور جرنل ’’نیچر‘‘ میں شائع کی گئی ہیں۔

گولڈ مین نے اندازہ لگایا ہے کہ ڈی این اے میں ڈیٹا محفوظ کرنے کی قیمت 12400 ڈالر فی میگا بائٹس تک ہے جبکہ 220ڈالر فی میگا بائٹس اس ڈیٹا کو پڑھنے کے لئے خرچ کرنے ہونگے۔ یقینا یہ انتہائی زیادہ قیمت ہے اور عملی زندگی میں کوئی فی میگا بائٹس ڈیٹا کی اتنی قیمت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن گولڈ مین کے مطابق جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کرے گی، اگلی چند دہائیوں میں ڈی این اے سیکوئنسنگ اور سینتھیسائزنگ کی قیمت بہت تیزی سے کم ہوگی اور ڈی این اے میں ڈیٹا محفوظ کرنے کی قیمت مقناطیسی اسٹوریج جتنی کم ہوجائے گی۔

Comments are closed.