گوگل کے جعلی خبروں کے تدارک کے لیے اہم اقدامات

انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی وجہ سے جعلی خبریں پھیلانا بہت آسان ہوگیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم فیک نیوز یا جعلی خبروں کے زمانے میں جی رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے؟یا بھارت میں کسان کوکا کولا اور پیسی کوبطور کیڑے مار دوا استعمال کرتے ہیں؟ ایسی ہی ہزاروں جعلی خبریں اور افواہیں انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ہر شخص تک پہنچ رہی ہیں۔ یہ جعلی خبریں اس وقت اور پریشانی کا سبب بنتی ہیں جبکہ دنیا میں حادثہ پیش آتا ہے اور انٹرنیٹ پر اس حوالے سے افواہوں کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ ان خبروں کے منفی اثرات بڑھنے کے سبب اب ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے تدارک کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔

 

 

اس ساری صورتحال میں سرچ انجن بھی اس کوشش میں ہیں کہ اُن کے نتائج جعلی خبروں سے پاک ہوں، وہ حقیقت اور فسانے میں فرق کر سکیں۔ دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے جعلی خبروں سے نمٹنے کے لئے ایک نیا کوالٹی کنٹرول ٹول متعارف کرایا ہے، جس سے تلاش کے نتائج اور خبروں پرخبر کے اصلی یا جعلی ہونے کی تصدیق کی جاسکے گی۔

گوگل نے اس مقصد کے لئے Snopes اور PolitiFact نامی سروسز کے ساتھ مل کر کام شروع کیا ہے۔ یہ دونوں سروسز کسی دعوے کی تصدیق یا تردید کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔گوگل ان دونوں کے تعاون سے خبروں کی سچائی کی درجہ بندی کرے گا ۔اس طرح نتائج میں بہتری لائی جاسکے گی اور جعلی خبروں کا تدارک ہوسکے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس درجہ بندی کو کوئی ایک شخص یا کمپنی کنٹرول نہیں کرے گی۔ اصل میں اس فیچر سے دوسرے مصنّفین اور پبلشر بھی مواد کو چیک کر سکیں گے۔ یعنی رپورٹر اپنے ساتھی رپورٹروں کی شائع کردہ خبروں کی ریٹنگ بھی کرسکیں گے۔ اس طرح مواد کی تصدیق زیادہ بہتر انداز میں ہوسکے گی۔

جس طرح وِکی پیڈیا پر صارفین مواد کی سچائی کے حوالے سے سوالات کر سکتے ہیں، اسی طرح گوگل کے اس فیچر سے عام صارفین کو بھی ایسا اختیار حاصل ہوگا۔ سرچ نتائج میں مواد کی سچائی یا جھوٹ سے متعلق ٹیگ کا آپشن ہرتلاش کے نتیجے میں نہیں آئے گا۔ بلکہ یہ بریکنگ نیوز یا خاص مواد کی خبروں کے ساتھ آئے گا۔

کسی مواد کے جعلی یا سچ ہونے سے متعلق یہ رائے گوگل کی اپنی نہیں ہوگی۔ اس رائے کا بنیادی مقصد لوگوں کو مواد کی سچائی سے متعلق خود فیصلہ کرنے کے لئے مدد فراہم کرنا ہے۔ ایک خبر سے متعلق مختلف افراد کی رائے مختلف ہوسکتی ہے۔

گوگل نے پچھلے سال اکتوبر میں فیکٹ چیک کو متعارف کرایا تھا۔ اسے امریکا اوربرطانیہ کے محدود صارفین کےلیے لانچ کیا گیا تھا لیکن اب یہ ساری دنیا میں دستیاب ہے۔اسی طرح فروری میں فرانس اور ساری دنیا کے 37 میڈیا آؤٹ لٹس کے ایک گروپ نے گوگل کے ساتھ مل کر ”کراس چیک “لانچ کیا تھا۔ کراس چیک بھی ایک فیکٹ چیک ٹول ہے لیکن اس کا مقصد فرانسیسی انتخابات کے دوران جعلی خبروں پر نظر رکھنا تھا۔

نوٹ: یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ 127 میں شائع ہوئی

اگر آپ یہ اور اس جیسی درجنوں معلوماتی تحاریر پڑھنا چاہتے ہیں تو گھر بیٹھے کمپیوٹنگ کا تازہ شمارہ حاصل کریں۔

Comments are closed.