خراب کی بورڈ کے کون سے بٹن کے ساتھ کیا مسئلہ ہے باآسانی جانیں

آج کل کمپیوٹر کا استعمال ہماری زندگی میں اتنا بڑھ چکا ہے کہ اکثر کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے ہم کھانا بھی کمپیوٹر کے سامنے کھانے پر مجبور ہیں یا پھر چاہے تو کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے پینا ایک معمولی سی بات بن چکی ہے۔چائے، کافی یا پانی وغیرہ پیتے وقت اگر غلطی سے وہ کی بورڈ پر گر جائے تو مسئلہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کوئی نہ کوئی بٹن کام کرنا بند کر دیتا ہے۔

گیلے کی بورڈ کو ٹشو پیپر یا کپڑے سے فوراً صاف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے ہوا میں سوکھنے کے لیے بھی رکھنا چاہیے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کی بورڈ میں پانی چلے جانے کی وجہ سے اس کا کوئی نہ کوئی بٹن ضرور خراب ہو جاتا ہے۔

بٹن کی خرابی کئی صورتوں میں ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی بٹن مکمل طور پر کام کرنا بند کر دیتا ہے، کوئی بٹن مسلسل دبنا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ ٹائپ کرنا محال ہو جاتا ہے یا پھر کوئی بٹن انتہائی مختصر عرصے کے لیے انتہائی تیزی سے دب کر رُک جاتا ہے۔

تحریر جاری ہے۔ یہ بھی پڑھیں

کی بورڈ پر پانی گرنے سے ایسے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس صورت میں کی بورڈ کا کون سا بٹن درست ہے اور کون سا خراب ہے اس کا درست اندازا لگانا بھی عام کمپیوٹر صارفین کے لیے آسان نہیں۔ اس لیے اگر خدانخواستہ کبھی آپ کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش ہو تو ’’پاس مارک‘‘ کا پروگرام ’’کی ٹیسٹ‘‘ (PassMark KeyboardTest) آپ کے پاس موجود ہونا چاہیے جو درج ذیل ربط سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے:
passmark.com/products/keytest.htm

اس پروگرام کو انسٹال کرنے کے بعد آپ کو اپنے کی بورڈ کا انداز منتخب کرنا پڑتا ہے کیونکہ مختلف کمپنیز کے کی بورڈز مختلف انداز کے ہوتے ہیں اور ان پر موجود بٹنز کی پوزیشن الگ الگ ہوتی ہے۔ عموماً اس میں موجود Dell کی بورڈ زیادہ تر کی بورڈز سے مشابہت رکھتا ہے۔

اس طرح یہ پروگرام باآسانی فوراً آپ کے کی بورڈ کو جانچنے کے بعد مکمل رپورٹ فراہم کر دے گا کہ کون سے بٹن کے ساتھ کیا خرابی ہو چکی ہے یا کی بورڈ بالکل درست ہے۔ اس طرح ریپئرنگ کمپنی کا رُخ کرنے سے پہلے درست طریقے سے کی بورڈ کی صورتِ حال کا جائزہ آپ خود بھی لے سکتے ہیں۔ یہ پروگرام مفت نہیں البتہ 30 دن کے ٹرائل پر ضرور دستیاب ہے کیونکہ یہ مسئلہ بالکل وقتی نوعیت کا ہے اور کبھی کبھار ہی درپیش ہوتا ہے اس لیے ایسی اچانک صورتِ حال میں اس پروگرام کا علم ہونا کافی مفید ثابت ہوتا ہے۔

یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ نمبر 124 میں شائع ہوئی

Comments are closed.