یوٹیوب چند ٹکوں کے لئے گند سے بھر دیا گیا

آن لائن وڈیوز دیکھنے کے لیے یوٹیوب اس وقت سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔گوگل نے 2006 میں یوٹیوب کو خریدنے کے بعد اس میں بے شمار فیچرز متعارف کرائے اور اسے دنیا کی ٹاپ ویب سائٹس کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔ اس ویب سائٹ کی مقبولیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب کئی بڑے میڈیا ہاؤسز اور ٹی وی چینلز بھی اس کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز دو طرح سے اس سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔

پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ان کے پروگرامز جو کہ ایک دفعہ نشر ہونے کے بعد شاید ایک آدھ بار ہی دوبارہ نشر ہوتے ہیں، چینل کے ریکارڈ روم میں دفن ہونے کی بجائے وہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کر کے بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے ناظرین کے لیے دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بدستور ان کی مشہوری ہوتی رہتی ہے۔ اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یوٹیوب کو اپنی وڈیو میں اشتہارات دِکھانے کی اجازت دے دیں تو اس کے عوض یوٹیوب رقم ادا کرتی ہے۔ اس طرح ٹی وی چینلز کے پروگرامز عوام تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور اس کے بدلے وہ مزید رقم بھی کما لیتے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک جائزہ طریقہ ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

قابلِ اعتراض وہ طریقے ہیں جن میں دوسرے محنت کیے بغیر یوٹیوب سے کمانا شروع ہو جاتے ہیں یا پھر محنت بھی کرتے ہیں تو اتنی غیر معیاری کے وہ دوسروں کے لیے فائدے مند نہیں بلکہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

جیسے کہ مارک ٹوئن کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’صحت پر کتابیں پڑھتے ہوئے محتاط رہیے۔ کتابت کی غلطی سے آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘

کمائی بذریعہ غیر اخلاقی مواد

یوٹیوب پر غیر اخلاقی مواد کے ذریعے کمانا تو اب ایک معمولی سی بات بن چکی ہے۔ اس موضوع پر ہم پہلے بھی کئی دفعہ لکھ چکے ہیں لیکن اس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں غیر اخلاقی وڈیوز دیکھنے کا رجحان انتہائی زیادہ ہے اور چونکہ یوٹیوب مقبول وڈیوز کو سب سے پہلے اپنے ہوم پیج پر دِکھاتا ہے اس لیے ناچاہتے ہوئے سب کو انھیں بھگتنا پڑتا ہے۔

افسوس کا مقام یہیں ختم نہیں ہوتا، بلکہ یہ دیکھ کر مزید دُکھ ہوتا ہے کہ یہ وڈیوز بنانے والے کوئی غیر ملکی نہیں جو یہ گند ہم پر مسلط کر رہے ہوں بلکہ ہمارے اپنے ہم وطن دوسروں کی دلچسپی کو مدِنظر رکھتے ہوئے انتہائی غیراخلاقی موضوعات پر وڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہے ہیں چونکہ انھیں دیکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے اس لیے وہ اپنے چینلز کے ذریعے کمائی کرنے میں بھی مصروف ہیں۔ اگر لوگ ان وڈیوز کو دیکھنا چھوڑ دیں تو ان کو بنانے والوں کی کمائی رُک جائے گی اور نتیجتاً وہ ایسی وڈیوز بنانا بھی بند کر دیں۔

یوٹیوب ہوم پیج

کمپیوٹنگ کے گزشتہ شمارے میں ہم نے ’’کلک بیٹ‘‘ پر بھی تفصیلی مضمون شائع کیا ہے جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح یوٹیوب پر ’’پُرکشش‘‘ تصویر استعمال کرتے ہوئے لوگ دوسروں کو اپنی وڈیو دیکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

یوٹیوب پر موجود غیر ضروری اور غیر اخلاقی وڈیوز بلاک کریں

آج کل جو طریقہ رائج ہے اس میں وڈیو بنانے والے یہ نیک حضرات حکیمی ٹوٹکوں کی سستی سی کتاب سے بس ’’ترکیبیں‘‘ اردو میں لکھ کر سلائیڈ شو بناتے ہیں، وڈیو کا عنوان انتہائی ’’پُرکشش‘‘ رکھتے ہیں اور ایسی ہی تصویر استعمال کرتے ہیں اور ان کا کام ہو جاتا ہے۔ یہ وڈیو دیکھنے کے لیے لوگ ایسے کھنچے چلے آتے ہیں جیسے سوئی مقناطیس کی جانب۔

اُردو کمپیوٹر چینلز کا انتہائی ابتر معیار

چونکہ ہمارا شعبہ کمپیوٹر ہے تو ہم نے سوچا اس حوالے سے مقبول اُردو چینلز کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ پیسے کمانے کی خاطر نیم حکیموں نے اس شعبے کو بھی معاف نہیں کیا۔ انتہائی غیر مستند کمپیوٹر ٹپس کو استعمال کرتے ہوئے صاحبان نے وڈیوز بنا کر اپنے چینل پر اپ لوڈ کر رکھی ہیں۔

اصل دُکھ اس وقت ہوتا ہے جب یہ پتا چلتا ہے کہ لاکھوں لوگ اسے دیکھ چکے ہیں اور تبصروں میں داد بھی دے چکے ہیں۔ ایک آدھ جگہ جب ہم نے لوگوں کو اس وڈیو کی حقیقت بتانے کی جرات کی تو اُلٹا ’’مریدوں‘‘ نے ہمیں ہی لتاڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

کیا زیادہ ویووز کامیابی کی علامت ہیں؟

یہاں ایک اور بہت بڑا سوال سامنے آتا ہے کہ کیا کسی وڈیو کے زیادہ سے زیادہ ویووز اس کی کامیابی کا نشان ہیں؟ عموماً تو یہ بات سچ ہی ہے لیکن ہر دفعہ نہیں۔ اگر آپ مقبول پاکستانی میوزک شو ’’کوک اسٹوڈیو‘‘ کی مثال دیکھیں تو آپ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس شو کا آخری سیزن تاریخ کا کامیاب ترین سیزن رہا۔ اس مقبولیت کو اُن کی وڈیوز کو دیکھی گئی تعداد سے ناپا گیا لیکن اس میں ہم نے دو باتوں کو سرے سے نظرانداز کر دیا۔

پہلی بات: آج سے چند سال پہلے ویوورز کی تعداد کیا تھی اور آج کیا ہے؟ آج سے چند سال قبل اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ ہر کسی کی دسترس میں نہیں تھا اس لیے وڈیوز کی دیکھی گئی تعداد انتہائی کم ہوتی تھی۔ لیکن آج کل صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں اسمارٹ فون موجود ہے جس پر انٹرنیٹ چل رہا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر وڈیو کو دیکھے جانے کی تعداد بڑھ گئی ہے، اب یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی نے وڈیو دیکھی تو ضرور اسے پسند کیا ہو گا لیکن یہاں تو صرف دیکھا جانا گِنا جاتا ہے پسندیدگی و ناپسندیدگی کو کہاں توجہ دی جاتی ہے۔ دیکھنے والی عوام بھی ذہن کی انتہائی کچی ہے تو ویووز حاصل کرنا کون سا مشکل کام ہے۔

یوٹیوب وڈیوز کے ساتھ ڈاؤن لوڈ کرنے کا آپشن حاصل کریں

دوسری بات: فیس بک پر کوئی بھی وڈیو یا پوسٹ جب آپ دیکھیں کہ بلاوجہ آپ کو دِکھائی جا رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اپ لوڈ کرنے والے نے اس کام کے فیس بک کو پیسے ادا کر رکھے ہیں۔ یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ کسی پیج کے لاکھوں لائیکس ہونے کے باوجود اُن کی پوسٹ تمام لائیک کرنے والے لوگوں کو نہیں دکھائی جاتی، لیکن اگر آپ فیس بک کو رقم ادا کرتے ہوئے پوسٹ کو بوسٹ (Boost) کرتے ہیں تو یہ اُن لوگوں کو بھی دِکھائی جائے گی جنھوں نے پیج لائیک نہیں کر رکھا بلکہ اپنی پسند کے اعتبار سے لوگوں تک پوسٹ پہنچائی جا سکتی ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ فیس بک ایسی پوسٹس کے ساتھ Sponsored لکھا دِکھاتی ہے تاکہ صارفین سمجھ سکیں کہ یہ تشہیری پوسٹ ہے۔ اگر آپ غور کرنا شروع کریں تو آپ کو روز ہی اپنی نیوز فیڈ میں ایسی پوسٹس دِکھائی دیں گی۔

دوسروں کی وڈیوز سے کمانا

بھئی یہ طریقہ بہت ہی آسان اور دلچسپ ہے۔ یوٹیوب کی کاپی رائٹس کے حوالے سے پالیسی انتہائی سخت ہے کہ آپ کسی دوسرے کی وڈیو یا میوزک استعمال نہیں کر سکتے لیکن ’’ماہرین‘‘ نے اس کا توڑ بھی نکال لیا ہے۔ آج کل یوٹیوب پر بڑی تعداد میں ’’ری ایکشنز‘‘ وڈیوز بنائی جا رہی ہے۔ کئی لوگوں کے چینلز صرف اسی کے سہارے چل رہے ہیں۔

اس میں ہوتا یہ ہے کہ یوٹیوب کی ہی کوئی وڈیو دیکھتے ہوئے اپنے تاثرات کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی مزاحیہ وڈیو یا کسی فلم کا ٹریلر چھوٹی سی ونڈو میں چل رہا ہوتا ہے اور چینل والا یا والی بڑی ونڈو میں خود موجود ہوتے ہیں اور اپنے تاثرات کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ کئی لوگ تو وڈیو بناتے ہوئے باقاعدہ یہ بیان دیتے ہیں کہ میں نے ابھی تک اس وڈیو کو نہیں دیکھا اس لیے میرے تاثرات بالکل حقیقی ہوں گے۔ اب اگر وڈیو میں تاثرات دِکھانے والی کوئی خاتون ہے تو لاکھوں ویووز یقینی ہیں۔

اس سے اصل وڈیو بنانے والے کو بہت نقصان ہوتا ہے کیونکہ یہاں دیکھنے والے ایک ٹکٹ میں دو مزے لے اُڑتے ہیں، ایک تو وڈیو بھی دیکھ لی اور دوسرا تاثرات سے بھی لطف اندوز ہو لیے، اب بھلا اصل وڈیو جو کہ پہلے سے ہی دیکھ لی ہے اصل چینل پر دیکھنے کون جائے گا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ کبھی کوئی ان ری ایکشن وڈیوز پر اپنا ری ایکشن دے تو یہ ناراض ہو جاتے ہیں بلکہ اُس وڈیو پر پھر اپنا ری ایکشن ریکارڈ کر دیتے ہیں یعنی کہ وڈیو کے اندر چلتی وڈیو میں بھی وڈیو اور پھر اُس کے آگے وڈیو میں بھی وڈیو۔ وڈیو نہ ہو گئی انسیپشن (Inception) فلم ہو گئی کہ A dream within a dream within a dream?

جنسی کہانیاں

چند سال قبل جب جنسی کہانیاں کتابی صورت کی بجائے انٹرنیٹ پر آئیں تو انتہائی تیزی سے مقبول ہونا شروع ہو گئیں۔ لیکن پھر دنیا فیس بک اور یوٹیوب میں سمٹ گئی تو اس کی مقبولیت کم ہو گئی کیونکہ اب لوگ پڑھنے کی بجائے ’’دیکھنے‘‘ میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ اب حال ہی میں یوٹیوب پر یہ سلسلہ دوبارہ سے زور پکڑ رہا ہے۔

انتہائی مخرب الاخلاق کہانیاں یوٹیوب پر ٹرینڈنگ میں نمبرون تک پہنچ جاتی ہیں اور ان کی کامیابی کا راز بھی زنانہ آواز ہے۔ زیادہ تر یہ کام ہندوستان میں ہو رہا ہے لیکن چونکہ ہندی اور اردو میں زیادہ فرق نہیں اس لیے پاکستان میں بھی یہ وڈیوز ٹرینڈنگ میں اوپر کے درجوں پر پہنچ جاتی ہیں۔

یہ سلسلہ یہیں نہیں رُکتا بلکہ وڈیوز کے نیچے تبصروں میں لوگ اپنے فون نمبرز بھی لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں جہلا کے سبب گند کا یہ سیلاب انٹرنیٹ کو اپنے دھارے میں بہائے لیے جاتا ہے۔

بچوں کے لیے خصوصی یوٹیوب ایپلی کیشن

یوٹیوب پر فحش مواد بھلا کیسے اپ لوڈ ہو سکتا ہے؟

یوٹیوب پر ویسے تو فحش مواد سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین موجود ہیں لیکن گوگل کی یہ سروس فحش وڈیوز سے بھرتی جا رہی ہے۔ یوٹیوب پر نہ صرف فحش وڈیوز اپ لوڈ کی جا رہی ہیں بلکہ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی بھی دھڑلے سے جاری ہے۔ یہ سب کچھ گوگل کے نظام میں موجود ایک چور دروازے کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے۔

دراصل یوٹیوب پر جب کوئی وڈیو اپ لوڈ کی جاتی ہے تو گوگل کی ہوسٹنگ سروس اسے کونٹینٹ آئی ڈی سافٹ ویئر کے ذریعے اسکین کرتی ہے۔ اسی دوران اس کا موازنہ کاپی رائٹ مواد سے بھی کیا جاتا ہے، اگر اس میں کوئی ایسی چیز موجود ہو تو اس وڈیو کو یوٹیوب پر جانے سے روک دیا جاتا ہے۔

لیکن اس پورے عمل سے وڈیو تبھی گزرتی ہے جب اسے عوامی طور پر یعنی Publically شیئر کیا جائے۔ جب کسی وڈیو کو پبلک کے لیے اپ لوڈ نہیں کیا جاتا تو یہ ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہو جاتی ہے اور ایک چور دروازے سے دیکھنے کے لیے دستیاب بھی ہو جاتی ہے کیونکہ اب یہ فلٹر نہیں ہوگی۔

مکمل یوٹیوب پلے لسٹ ڈاؤن لوڈ کریں

یہ وڈیو اب یوٹیوب پر تلاش کرنے سے تو نہیں ملے گی لیکن دیگر ویب سائٹس پر اسے یوٹیوب پلیئر کی مدد سے ایمبیڈ کیا جا سکتا ہے، یعنی وڈیو یوٹیوب پر موجود ہو گی، یوٹیوب پر دیکھی نہیں جا سکے گی لیکن دیگر ویب سائٹس پر باآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی مواد بڑی تعداد میں یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کئی کمپنیز اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مواد اس وقت تک یوٹیوب سے نہیں ہٹایا جاتا جب تک کوئی اسے رپورٹ نہ کرے اور رپورٹ کرنے پر بھی یوٹیوب کی جانب سے بہت دیر سے جواب دیا جاتا ہے۔

’’موقعے پہ چوکا‘‘ لگانے والے ماہر

بھئی اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ’’موقعے پہ چوکا‘‘ کس طرح لگایا جاتا ہے تو یہ کام آپ باآسانی ماہرین کے یوٹیوب چینلز پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اس طرح کے آج کل حالات جس دھارے میں بہہ رہے ہوں یا تازہ ترین کوئی بڑا واقعہ پیش آیا ہو تو فوراً اس حوالے سے کوئی ایسی وڈیو بنا دیں کہ لوگ دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ طریقہ بہت ہی آسان ہے۔

پچھلے دنوں جب پی آئی اے کی فلائٹ کے ساتھ حادثہ پیش آیا تو لوگوں نے اسے خوب کیش کرایا۔ کئی لوگوں نے جہاز کے اندر کے منظر کی وڈیوز پیش کر دیں جسے لاکھوں لوگ دیکھنے اُمڈ آئے۔ یہ سلسلہ چند دن تھما تو جنید جمشید مرحوم کی قبر سے خوشبوئیں پھوٹنے کا سلسلہ چل نکلا۔ کسی نے قبرستان کے گورکن کی وڈیو بنا دی جو کہہ رہا تھا کہ قبر سے خوشبوئیں پھوٹ رہی ہیں اور یہ ایک معجزہ ہے۔ ہماری قوم تو ویسے ہی معجزات کی دیوانی ہے اس لیے یہ وڈیو بھی ٹاپ ٹرینڈ میں پہنچ گئی۔

کسی شوبز یا سیاسی شخصیت کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے بس کوئی سی بھی وڈیو چاہے وہ کاپی شدہ ہو فٹافٹ بے ہودہ سے عنوان کے ساتھ یوٹیوب پر ڈال دیں پھر دیکھیں لوگ کس طرح اسے دیوانہ وار دیکھتے ہیں۔ اس کی مثال وقار ذکا کے ساتھ پیش آئے تازہ ترین واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔

بلکہ دور کیوں جاتے ہیں ابھی چند دن پہلے آئل ٹینکر کے گرنے اور پھر پھٹنے والے واقعے کی مثال لے لیں تو کئی لوگوں نے دوسرے ملکوں کی ایسی ہی وڈیوز کو اس واقعے سے جوڑ کر اپ لوڈ کر دیا اور ہماری قوم نے ان کو لاکھوں ویوز اور شیئرز سے نواز دیا۔

حرفِ آخر

پہلے کہتے تھے کہ جاہل کا اُس وقت تک اندازا نہیں ہوتا جب تک وہ منہ نہیں کھولتا۔ لیکن اب کسی کے منہ کھلنے کا انتظار کیے بغیر کسی کی پروفائل سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ اس لیے ہم وقت فوقتاً ایسے مضامین شائع کرتے رہتے ہیں کہ برائے مہربانی ایسے جعل سازوں سے دُور رہیں، یوٹیوب اور فیس بک پر ایسی چیزوں کی طرف مت جائیں جن میں آپ کی سیاسی، قومی یا مذہبی کمزوری کو استعمال کیا گیا ہو۔ چاہے کوئی عام بندہ ہو یا میڈیا ہاؤسز ان کا مقصد تو ویسے ہی آپ کو پھنسانا ہوتا ہے اس لیے وہ ایسی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کو اپ لوڈ کر کے آپ کی توجہ حاصل کر سکیں۔

آپ چاہیں تو اسی وقت یوٹیوب کا ہوم پیج دیکھ لیں اور اندازا کر لیں۔ غیر معیاری مواد کی مقبولیت سے تخلیقی کام کرنے والوں کی بہت دل آزاری ہوتی ہے اور وہ ان کے مقابلے میں اپنا جائز مقام حاصل نہ ہونے کی صورت میں اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں جس کے بعد جاہلیت کا راج ہو جاتا ہے۔

خدارا خود بھی ایسی چیزوں سے دُور رہیں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں تاکہ ہم ایک بہتر معاشرہ تعمیر کر سکیں۔

3 تبصرے
  1. Faisal Aziz says

    سر اسلام و علیکم۔ بہت اچھا آرٹیکل لکھا ہے۔ آپ کی ویب سائٹ پر کچھ روابط (لنکس) کسی اور زبان میں دکھائی دے رہے ہیں جن کو پڑھنا نا ممکن ہے مہربانی فرما کر ان کی تصحیح کر دیں
    https://uploads.disquscdn.com/images/fd1cbbd2b7bd01bb408ea1be4b38a80e40b307c9c769905871ba22253f39b275.jpg

  2. Mustafa Kamal-usa says

    ماشاءاللہ بہت معلوماتی مضامین ہے

Comments are closed.