وٹس ایپ آپ کا موبائل نمبر فیس بک کے ساتھ بانٹے گا

گزشتہ دنوں اس خبر نے پاکستانی انٹرنیٹ اسپیس پر خوب دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔ مقبول ایپلی کیشن وٹس ایپ نے تقریباً چار سال بعد اپنی پرائیوسی ایگرمنٹ کو تبدیل کیا تاکہ فیس بک کے ساتھ تعاون اور رابطے کو بہتر کیا جاسکے۔ ساتھ ہی وٹس ایپ میں شامل کی گئی نئی سہولیات کے متعلق بھی پرائیوسی ایگرمنٹ کو تازہ کیا گیا۔ نئی تبدیلیوں میں سب سے اہم یہ بات تھی کہ اب وٹس ایپ اپنے صارفین کا موبائل نمبر فیس بک کے ساتھ بانٹے گا تاکہ فیس بک صارفین کو زیادہ بہتر طور پر اشتہارات دکھا سکے اور فیس بک کو اسپیم پیغامات اور لوگوں سے بچا سکے۔ وٹس ایپ ماضی کی طرح مستقبل قریب میں بھی اشتہارات سے پاک رہے گا۔ تاہم یہاں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ وٹس ایپ صارفین کے موبائل نمبر کسی شخص کو دے رہا ہے نہ اسے عام کررہا ہے بلکہ یہ نمبر فیس بک کے خود کار الگورتھم میں شامل کیا جائے گا۔ صارفین کا ہر قسم کا دوسرا ڈیٹا جو وٹس ایپ میں موجود ہے، ہر گز فیس بک کو نہیں دیا جارہا۔ صارفین کے ایک دوسرے کو کئے جانے والے پیغامات اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کی وجہ سے انکرپٹ ہوتے ہیں اس لئے وٹس ایپ ہو یا فیس بک ، ان دونوں میں سے کوئی بھی انہیں ڈی کرپٹ نہیں کرسکتا۔

بدقسمتی سے اس معمولی خبر جس کا صارفین پر براہ راست کوئی اثر پڑنا ہے نہ ان کے ڈیٹا کو کوئی خطرہ ہے، کو پاکستانی بلاگرز اور تکنیکی / سائنسی صحافت سے ناواقف صحافیوں اور اشخاص نے بہت منفی انداز میں سوشل میڈیا پر پیش کیا۔ ان افواہوں میں بتایا گیا کہ وٹس ایپ آپ کا ڈیٹا جلد ہی فیس بک کے ساتھ شیئر کرنے جارہا ہے اور اسے فلاں فلاں طریقے سے روکا جاسکتا ہے۔ ان افواہوں کو پھیلانے میں پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے جانی مانی شخصیات نے بھی خوب کردار ادا کیا۔

وٹس ایپ نے اپنی صارف دوست پرائیوسی پالیسی کی وجہ سے ہمیشہ تعریف بٹوری ہے۔ جب 2014ء میں فیس بک نے وٹس ایپ کو انیس ارب ڈالر کے عوض خریدا تو اس وقت بھی بہت سے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ فیس بک اپنے کاروباری مقاصد کے پیش نظر وٹس ایپ کے ڈیٹا کو بھی اپنے استعمال میں لائے گا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ماہرین کو پہلے سے اندازہ تھا کہ ایسا ہونے جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ فیس بک 19 ارب ڈالر کی خطیر رقم جو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سے بھی زیادہ بڑی رقم ہے، کے عوض کچھ تو کاروباری فوائد حاصل کرنا چاہے گا۔ فیس بک کے حالیہ اعلانات کی وجہ سے ان خدشات کو تقویت ضرور ملتی ہے۔ تاہم صارفین کا ڈیٹا ہمیشہ محفوظ رہے گا۔

Comments are closed.