ڈارک ویب اور ڈیپ ویب کیا ہے، اس تک کیسے پہنچا جاتا ہے؟

انٹرنیٹ اور پرائیویسی خدشات

1985ء میں جس وقت ٹم برنرزلی ورلڈ وائیڈ ویب کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھے، ڈیوڈ چام نے Security without Identification کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے ایک جگہ لکھا کہ ” کمپیوٹرائزیشن کی وجہ سے لوگ اپنے متعلق معلومات کے ممکنہ استعمالات کی نگرانی کرنے اور قابو کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہے ہیں۔ پبلک اور پرائیوٹ ادارے پہلے ہی لوگوں کی ذاتی معلومات جمع کررہے ہیں اور اسے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ لوگوں کے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کی معلومات درست ہے، پرانی ہے یا نامناسب ہے۔ انہیں اس کے بارے میں اسی وقت پتا چلتا ہے جب ان پر الزامات لگتے ہیں یا اس معلومات کی بنیاد پر انہیں کوئی سروس فراہم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ “

ڈیوڈ چام نے آج سے تقریباً تین دہائی پہلے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ آج ہمارے سامنے خوفناک حقیقت کی شکل میں موجود ہے۔ گوگل، یاہو! اور فیس بک جیسی کمپنیاں اپنے صارفین کے بارے میں اس قدر معلومات رکھتی ہیں جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ رہی سہی کسر طاقتور ممالک نے پوری کررکھی ہے۔ انٹرنیٹ اور ورلڈ وائیڈ ویب کے ابتدائی دنوں میں ہی ان ممالک نے مختلف حربوں کے ذریعے جاسوسی کا عمل شروع کردیا تھا۔ لیکن گزشتہ سال جب امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل کنسلٹنٹ ایڈورڈ سنوڈن نے اس خفیہ ادارے کی حرکات و سکنات سے پردہ اٹھایا تو دنیا سکتے میں ہی آگئی۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ جاسوسی کا یہ کام اس قدر بڑے پیمانے پر بھی کیا جارہا ہوگا۔ٹم برنرزلی بھی یہ سب دیکھ کر تلملا اُٹھے اور انٹرنیٹ صارفین کے تحفظ کے لئے ”عظیم منشور یا میگنا کارٹا “جیسے قانون کا مطالبہ کرڈالا۔ میگنا کارٹا 1215ء میں منظور ہونے والا وہ تاریخی قانون ہے جس میں سلطنت برطانیہ کے بادشاہ John کو عوام نے مجبور کردیا کہ وہ آزاد شخص کو بنیادی آزادیاں دینے کی ضمانت دے۔ اس قانون میں ضمانت دی گئی کہ کسی آزاد شخص کو گرفتار کرکے قید نہیں کِیا جائے گا یا اُس کے حقوق یا اثاثوں پر قبضہ نہیں کِیا جائے گا، نہ ہی اُسے ملک بدر یا اسیر کیا جائے گا یا کسی دوسرے طریقے سے اُس کی حیثیت سے محروم کیا جائے گا۔ اُس سے زبردستی کی جائے گی نہ کسی کو ایسا کرنے کیلئے بھیجا جائے گا صرف اُس کے برابر کے لوگوں یا مُلک کے قانون کے مطابق قانونی طور پر ایسا کیا جا سکتا ہے۔برطانوی بادشاہ John نے یہ بھی اقرار کیا کہ اس کی اپنی ذات بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

ٹور پروجیکٹ

جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا انٹرنیٹ پر جاسوسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انٹرنیٹ۔ امریکی حکومت کو اس کا بخوبی احساس تھا (شاید اس لئے کہ وہ اس کام میں خود بھی ملوث تھے) کہ انٹرنیٹ پر ہونے والے ڈیٹا کے تبادلے کو نگرانی سے بچانے کے لئے کسی نظام کی ضرورت ہے۔ یہ نظام وہ اپنے ڈیٹا اور کمیونی کیشن کو باقی دنیا کی نظروں سے بچانے کے لئے بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے امریکہ نیول ریسرچ لیبارٹری کے تین ملازمین جن میں سے ایک ریاضی دان اور دو کمپیوٹر سائنٹسٹ تھے، نے onion routing کا نظام پیش کیا۔ یہ بات 90ء کی دہائی کے وسط کی ہورہی ہے۔ اس نظام کی بنیاد ڈیوڈ چام کا وہی مقالہ تھی جس میں انہوں نے ای میل کو الیکٹرانک سرویلنس یا نگرانی /جاسوسی سے بچنے کا طریقہ وضع کیا تھا۔

ستمبر 2002ء میں اس پروجیکٹ کو TOR یا The Onion Routing کے نام سے جاری کیا گیا۔ لیکن انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب 2004ء میں نیول ریسرچ لیباریٹری نے اس پروجیکٹ کو اوپن سورس کردیا۔

Onion راؤٹنگ کے کام کرنے کا طریقہ کار بہت دلچسپ ہے۔ اس میں ڈیٹا بھیجنے اور وصول کرنے والے کمپیوٹرز کے درمیان براہ راست رابطہ نہیں ہوتا بلکہ ڈیٹا کو دنیا بھر میں پھیلے relay کمپیوٹرز جنہیں node یا router بھی کہا جاتا ہے، سے گزار کر منزل مقصود پر پہنچایا جاتا ہے۔

ڈیٹا بھیجنے سے پہلے اسے تین بار encrypt کیا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ پیاز کے چھلکوں کی طرح انکرپشن کی تین پرتیں لگائی جاتی ہیں۔ پھر اس ڈیٹا پیکٹ کو اٹکل سے (randomly) منتخب کردہ نوڈز کو بھجوایا جاتا ہے۔ نوڈز کی یہ فہرست ایک اسپیشل نوڈ جسے ڈائریکٹری نوڈ کہا جاتا ہے، فراہم کرتی ہے۔

ہر راؤٹر یا نوڈ سے گزرنے پر انکرپشن کی ایک پرت نکال دی جاتی ہے۔ جب نوڈ ڈیٹا کو decrypt کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ ڈیٹا پیکٹ اسے آگے کس نوڈ کو بھیجنا ہے لیکن اسے یہ نہیں پتا چلتا کہ جس نوڈ نے اسے یہ ڈیٹا پیکٹ تھمایا تھا وہ پہلا نوڈ تھا یا تیسرا۔ تینوں نوڈز سے گزرنے کے بعد ڈیٹا پیکٹ exit نوڈ پر پہنچاتا ہے جہاں یہ مکمل طور پر decryptہوچکا ہوتا ہے۔ وہاں سے اس ڈیٹا پیکٹ کو اس کی منزل مقصود پر پہنچا دیا جاتا ہے۔

دسمبر 2006ء میں کچھ لوگوں نے مل کر The Tor Project نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے TOR میں بہتری کا بیڑا اُٹھایا۔ اس تنظیم کو مالی مدد فراہم کرنے والوں میں گوگل ، ہیومن رائٹس واچ اور یونی ورسٹی آف کیمبرج جیسے نامی گرامی ادارے تھے۔

TOR پروجیکٹ نے انٹرنیٹ سینسر شپ اور الیکٹرانک سرویلنس کی بنیادیں ہلا کر رکھی دیں۔ مشرق سے مغرب تک جس حکومت کا جتنا زرور رہا ہے، اس نے اپنے محکوموں پر انٹرنیٹ کے کچھ دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے یا ان کی جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ TORکی وجہ سے یہ دونوں کام ہی ممکن نہیں تھے۔ ایڈورڈ سنوڈن کی چور ی کردہ سی آئی اے کی خفیہ دستیاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سی آئی اے TOR کی وجہ سے کس قدر جھنجھلاہٹ کا شکار تھی کیونکہ اس کے وجہ سے جاسوسی اور نگرانی کا عمل نہیں ہوپارہا تھا۔

Comments are closed.